ستیہ جیت رے اور ذائقے کی دنیا

ستیہ جیت رے کی سب سے قابل ذکر عادتوں میں سے ایک، کھانوں کی روایت پر ان کا خاص دھیان تھا۔ رے کو خاص طور پر بنگالی پکوانوں کے  لیے ان کی دلچسپی کے تعلق سے بھی جانا  جاتا تھا۔

وہ بہترین کھانے کے پارکھی تھے اور مختلف پکوانوں اور ذائقوں کا رس لینا جانتے تھے۔ انہیں خاص طور سے مچھلی کا سالن اور چاول جیسے روایتی بنگالی پکوانوں کا شوق تھا اور انہوں نے اکثر اپنی تہذیبی وراثت کو شردھانجلی دینے  کے لیے  اپنی فلموں میں بنگالی پکوانوں کے عناصر کو شامل کیا۔

ستیہ  جیت رے نہ صرف سینما میں اپنی بے مثال کارکردگی کے لیے جانے جاتے ہیں، بلکہ اپنے روزمرہ کے جیون میں اپنی دلچسپ اور کچھ انوکھی عادتوں کے  سبب بھی ان کو پہچانا جاتا ہے۔کھانا ان ہی میں سے ایک تھا۔

ستیہ جیت رے کی کلٹ فلم۔’گوپی گائن باگھا بائن'(1968) کو یاد  کیجیے، جہاں دو ہیرو ہیں اور انہیں تین وردان ملے ہیں۔بے حساب کھانے کی قوت، کہیں بھی سفر کرنے کی صلاحیت اور بھوتوں کے رواجا کے ذریعے فنِ موسیقی میں مہارت؟

راجا کا آشیرواد حاصل کرنے کے اگلے روز ، وہ بدیسی جنگل میں بلا مقصدگشت لگاتے ہوئے بھوک محسوس کرتے ہیں۔ اپنی بھوک کو مٹانے کی بے سود کوششوں میں وہ ایک دوسرے کے ہاتھ  پر ہاتھ مار کر تالی بجاتے ہیں ، یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا بھوتوں کے  راجا کا دیا ہوا تحفہ حقیقت میں کام کرتا ہے یا نہیں۔

وہ کھانے کی تلاش میں بھٹکتے ہیں! کاجو اور کشمش  سے بنے خوشبو دار اور ذائقہ دار پلاؤ سے بھری چاندی کی دو تھالیاں آسمان سے اترتی ہیں اور ان کے سامنے آجاتی ہیں۔ پلیٹ کے کنارے کے پاس ایک چٹکی نمک اور ایک نیبو کا ٹکڑا بڑے قرینے سے سجا  کر رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھول گوبھی  کالیا، مٹن کوش، مچھلی اور چٹنی کے ساتھ پلیٹ کی بغل میں چاندی کے پانچ کٹوروں کے دو سیٹ اترتے ہیں اور کھانے کو پورا کرنے کے لیے مٹھائی کی صورت میں بڑی سائز کا ‘راج بھوگ’ بھی نازل ہوتا ہے۔

دو ہیرو حضرات کی یہ جوڑی حیرت میں پڑ جاتی ہے اور ان کی آنکھیں تعجب اور بے یقینی سے بڑی ہوجاتی ہیں۔ باگھا  رہنمائی کرتا ہے اور گوپی کو حکم دیتا ہے۔

‘آئرے توبو کھاؤوا جاک

مونڈا مٹھائی چاؤوا جاک

کورمہ کالیا پلاؤ

جلدی لاؤ جلدی لاؤ’

(آؤ مِل جل کر کھاتے ہیں، مونڈا مٹھائی، قورمہ، کالیا  اور پلاؤ۔مونڈا مٹھائی بنگال کی مشہور سندیش مٹھائی کا ہی نام ہے، کورمہ یعنی قورمہ اور کالیا پکوان کا پورا نام  ہے قتلہ فِش کالیا۔)

یہ سارے مزے دار پکوان انہیں کھانے پر ٹوٹ پڑنے کے لیے مجبور کردیتے ہیں۔

یہ منظر فطری طور پر حیرت زدہ کرتا ہےاور سوال پیدا ہوتا ہے  کہ کیا ستیہ جیت رے خود کھانےکے ایسے شوقین تھے کہ انہوں نے پلیٹ پر ایک چٹکی نمک اور نیبو کے ٹکڑے کو اتنے  مہین انداز میں پیش کیا تھا؟کھانا، ان کی فلموں کا ایک اہم پہلو تھا اور ان کے کاموں میں اس کی  موجودگی بہت الگ ڈھنگ سے دکھائی بھی دیتی تھی۔ انہوں نے کھانے اور اس کے ذریعے، دنیا کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا جو ان کے لیے بنگالی تہذیب کی عالیشان وراثت کی علامت تھا۔

‘گوپی گائن باگھا بائن’ کے علاوہ بھی ایسی کئی فلمیں ہیں، جہاں کھانے کا استعمال اس سماجی و تہذیبی ماحول کو ظاہر کرنے کے لیے کیا گیا ہے جسے انہوں نے اپنی فلموں کے ذریعے  دکھانے کی کوشش کی تھی۔

1955 میں آئی ‘پتھیر پانچالی'(دی سونگ آف دی روڈ) سے شروعات کرتے ہوئے ستیہ جیت رے نے درشایا کہ کیسے بھوک 1950 کی دہائی میں بنگال کے دیہی علاقوں میں ایک  پریوار کے جیون اور رشتوں کو بدل دیتی ہے۔

فلم کی شروعات چھوٹی دُرگا کے ایک امیر پڑوسی کے باغیچے سے امرود چرانے سے ہوتی ہے۔ جب اس کی ماں سربجیا کو اس کا پتہ چلتا ہے ، تو وہ اپنی بوڑھی نند اِندِر ٹھکرون کو قصوروار ٹھہراتی ہے اور ساتھ ہی خوفزدہ ہوتی ہے کہ اِندِر کی عادتیں اس کی چھوٹی بیٹی پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ یہ صرف مشکلوں کی شروعات ہے۔ اس کا غصہ تنگدستی اور  وسائل کی کمی  سے زیادہ خالی پیٹ بھرنے کی اس کی جدوجہد سے پیدا ہوتا ہے۔

ستیہ جیت رے نے 1990 میں ‘شاکھا پرشاکھا’ کی ہدایت کاری  کی۔ فلم میں ایک بے نیاز اور اعلیٰ طبقے (اَپر مڈل کلاس) کے خاندان کی کہانی پیش کی گئی ہے جو برسوں کے بعد پھر سے آن ملا ہے۔ فلم میں، ایک لمبا منظر ہے جس میں کرداروں کو  ضیافت اڑاتے  اور اس  درمیان مختلف خاندانی معاملوں پر بات کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ جیسے جیسے کھانے کے دوران بات چیت آزادانہ طور پر ہوتی جاتی ہے، دھیرے دھیرے فلم میں تناؤ بھی پیدا ہوتا رہتا ہے جو فلم کے اگلے مرحلے میں مناظر کو ایک دوسرے سے جوڑنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

1991 میں آئی ‘اگنتُک'(اجنبی) ستیہ جیت رے کی ہدایت کاری میں بننے والی آخری کاوش کے روپ میں، کھانے کے حوالے سے اکثر سامنے آتی ہے۔ اس فلم میں  انہوں نے ایک خاص بنگالی خاندانی کھانے کی منظر کشی کی ہے۔

فلم کے ہیرو من موہن مترا ایک جاجابور(خانہ بدوش) ہیں۔جو پینتیس سال قبل گھر چھوڑ کرنکلے تھے اور پھر ایک دن وہ اپنی بھتیجی انِلا کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔انِلا اپنے چچا سے کبھی ملی نہیں۔ان کی اچانک آمد پر انِلا کے من میں ان کی پہچان  کے تعلق سے شک پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ بڑی کشمکش میں پڑ جاتی ہے، لیکن پھر بھی ایک شاندار طریقے سے ان کا سواگت کرتی ہے۔

اپنی حد درجہ مصروفیت کے باوجود ستیہ جیت رے نے اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت بتانے کو ترجیح دی۔ وہ ایک وفا شعار شوہر اور ذمہ دار باپ تھے اور اپنے عزیزوں کے ساتھ بتائے گئے وقت کو وہ بے حد پسند بھی کرتے تھے۔ان کا ماننا تھا کہ کام اور زندگی کے درمیان صحیح توازن برقرار رکھنے سے ذاتی اور خاندانی رشتے بہتر بنے رہتے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ اپنے کام سے  پرے ان رشتوں کی آبیاری کے لیے بھی مستقل کام کیا۔

اپنے روزمرہ کے جیون میں ستیہ جیت رے کی غیر معمولی عادتیں ان کی تخلیقی صلاحیت اور اپنے فن  سے ان کے گہرے رشتے کی دلیل ہیں۔وقت  کے بہتر استعمال کے لیے ان کے اصول پسند نظریے سے لے کر پڑھنے، سنگیت اور کھانے کے لیے ان کی محبت تک، رے کی عادتوں نے ان کی منفرد شخصیت اور ان کی تخلیقیت کو بڑھاوا دینے والے  معاملات کے بارے میں جانکاری فراہم کرنے میں مدد کی ہے ۔ان کی وراثت دنیا بھر کی فلموں کے ہدایت کاروں اور فن کاروں کو متاثر کرتی رہی ہے، جو اب تک کے سب سے عظیم فلم ہدایت کاروں میں سے ایک کی شکل میں ان کی اہمیت کو اور مضبوط کرتی ہے۔

٠٠٠

 

گارگی مشر ہندی کی نوجوان شاعر و ادیب ہیں، گاہے گاہے وہ عالمی ادب سے کچھ نظموں کے تراجم بھی کرتی ہیں۔ ادب کے ساتھ ساتھ فلم اور دوسرے آرٹ کے شعبے اور ان سے تعلق رکھنے والی اہم ہستیاں  بھی ان کی توجہ کا مرکز ہیں۔مشہور فلم ہدایت کار ستیہ جیت رے پر گارگی کا لکھا یہ مضمون ، ان کے کھانے کے شوق کے تعلق سے ہلکی پھلکی مگر دلچسپ باتیں بتاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی مضمون نگار نے واضح کیا ہے کہ رے کا تعلق اپنے علاقائی اور روایتی کھانوں سے کتنا گہرا تھا اور انہوں نے اسے اپنی فلموں میں کس طرح  اور کس سلیقے سے اتارا ہے۔ ستیہ جیت رے ، نہ صرف ایک ہدایت کار تھے بلکہ وہ ایک زبردست فکشن نگار بھی تھے۔ جاسوسی کہانیاں، سائنس فکشن کی کہانیاں انہوں نے جس طرح لکھی ہیں، ان پر آج بھی بہت کام ہورہا ہے۔ ایسے اعلیٰ فن کار کو جس نے رابندر ناتھ ٹیگور اور وبھوتی بھوشن بندوپادھیائے جیسے ادیبوں کی کہانیوں کو  کیمرے  میں قید کرکے ‘ کلاسیک ‘کی شکل عطا کردی  ہو، جس قدر اور جتنا جانا جاسکے، کم ہے۔ اسی حوالے سے یہ مضمون ایک خاص قسم کی اہمیت کا حامل ہے۔ مضمون ہندوی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے اور اسے مصنف کی اجازت سے اردو میں ترجمہ کرکے یہاں شائع کیا جارہا ہے۔ شکریہ