Edit Content

لولی گوسوامی کی نظمیں

نظم میں پوشیدہ معنی

 

ایک دن مجھے ایک ضدی، کھوجی

حجتی آدمی ملا

وہ ہر بیج کو پھوڑ کر دیکھ رہا تھا

کہ اس کے اندر کیا ہے

میں اسے آخر تک سمجھا نہیں پائی

کہ بیج کے اندر پیڑ ہوتے ہیں

٠٠٠

 

بزدلی کا گیت

 

یوں تو سب جیتنا ہی سیکھتے ہیں

لیکن تم ہارنا بھی سیکھنا

جب کوئی کہے رُکنا یا جانا تمہارا فیصلہ ہے

تب تم خود سے ہار کر رک جانا

 

یاد رکھنا کوئی انتظار کرے

تو لوٹ کر نہ آنے کے لیے تم آزاد نہیں

تمہاری آمد پر کسی کی راہ دیکھتی

نظر کی رونق ادھار ہے

 

کوئی کھانا دے تو بھوکے رہ جانے کے لیے

تم آزاد نہیں تمہاری ضد سے دبا دی گئی بھوک پر

کسی کے ہاتھوں میں بسنے والے ذائقے کی طمانیت ادھار ہے

 

کوئی بدن پرچیتھڑے دیکھ کر تمہارے لیے گرم پنکھوں کا لبادہ بُنے

تو ٹھنڈ میں مرجانے کے لیے تم آزاد نہیں

تمہارے ٹھنڈے ہوتے بدن پر کسی کے لمس کا تاپ ادھار ہے

 

روکنا اپنی اس  انا کو جو ہار جانے کے آڑے آتی ہے

سیکھنا کیسے اَنگُلی  مال *کی آنکھوں کی لال آگ ہار جاتی ہے

ایک گیانی کی معصوم آنکھوں کے ہمدرد پانی سے،دکھ

سمجھو  کہ اس میں صرف بدھ کی تو کرامت نہیں تھی

 

تم ایسے ہارنا کہ من لبالب بھرا لگے

اس گھڑے کی طرح جو پانی کی مسلسل دھار سے

ہار کر آخر کار بھر جاتا ہے

پھر کسی پیاسے کے سیراب ہوجانے تک

انتظار کرتا ہے پھر سے ہرائے جانے کے  لیے

 

جب تم ختم ہونا تو اس سندر کویتا کی طرح

جو ہر بار الگ کویتا کا بیج بن کر پھوٹتی ہے

دوردراز ملک کے کسی انجان پڑھنے والے کے من میں

نئے روپ میں پھر سے اپنے لکھے جانے کے لیے

 

ایسے بکھرنا جیسے کھیت بونے کے لیے کسان

مٹھی بھر کر بیج بکھیرتا ہے

لہلہاتی فصل کے تصور  میں وہ خود ہرا ہوجاتا ہے

تم فصل کی امید میں اس کا ہرا ہوتا چہرا دیکھنا

اس طرح بکھیرے جانے کے لیے تیار ہونا

 

جب سنکی جنگجوؤں کے ظالم ہاتھ

دنیا کی روپہلی سِلائی ادھیڑیں گے

ہرائے جانے کے افسوس کو ایک طرف کرکے تم

پریم کی چھوٹی سی سوئی سے دنیا کے ٹکڑے رفو کرنا

 

جب کوئی بھوک سے سوکھ کر مرجھائے بدن میں غذا کی طرح رِسے

سفید ہتھیلیوں میں خون کی گلابی  زیبائش کی جگہ بھر جائے

تب آتما کے دکھ سے پریم جذب کرنے کے لیے

اس کی بغل میں  گہری نیند سونا

 

*انگلی مال: گوتم بدھ کے زمانے کا ایک ڈاکو جو جنگل میں لوگوں کو لوٹ کر ان کی انگلیوں کا ہار بنا کر پہنا کرتا تھا،کہتے ہیں اسے گوتم بدھ کی وجہ سے گیان ملا اور ڈکیتی چھوڑ کر وہ راہ عرفان کا مسافر بنا۔

٠٠٠

 

انت میں

 

میں اس کے جسم میں ہلکے  دانتوں کے نشان سے بوتی رہی اپنا ہونا

اس کی  کپکپاہٹوں میں خواہش بن کر اُگتی رہی

 

اُس  کے جسم کو میں نے بوسوں کے  بہتے جھرنوں میں باندھ لیا

اپنے نہ ہونے میں اس کے ہونٹوں سے ہنسی بن کر جھڑتی رہی

 

یہ سب اس لیے کہ

ایک دن مجھے ٹوٹ کر اپنے ہی من پر

قبر کے پتھرسا گڑ جانا تھا

 

انکار کی ضدوں سے بنی سخت  اور بہت بڑی  دیواروں پر

اگنا تھایادوں کے غیر ضروری پیپل سا

 

پت جھڑ میں پیلے پتوں کا دھرم نبھاتے

شاخ سے یونہی جھڑ جانا تھا بے ساختہ

٠٠٠

 

بِن باتوں کی رات

 

تمہارے اندر جتنی نمی ہے

اتنے قدم ناپتی ہوں پانی کے اوپر

جتنا پتھر ہے تمہارے اندر

اتنا تراشتی ہوں اپنا من

 

خواہشوں کی جو ہری پتیاں بے وقت جھڑیں

وہ گلیں من کے بھیتر، اپنی ہی جڑوں کے پاس

کھاد پاکر اب کی جو خواہشیں پھلیں

وہ زیادہ گھنیری تھیں، ان کی بڑھت (بالیدگی) بھی

گزشتہ خواہشوں سے زیادہ چیمڑ تھی

 

تمہارا آنا سورج کا اگنا نہیں رہا کبھی

تم ہمیشہ گہراتی راتوں میں قندیل کی دھیمی لے بن کر آئے

تم سے بہتر کوئی نہیں جانتا

کہ مجھے چوندھیاتی روشنیاں پسند نہیں ہیں

 

میرا اندھیاروں میں گم ہوجانا آسان تھا

تمہاری کایا تھی جو اندھیرے میں

چراغ کی لو کی طرح جھلملاتی تھی

تمہاری موجودگی میں مجھے کوئی بھی پڑھ سکتا تھا

 

ایک بِن باتوں کی رات میں، میں نے دو باتیں جانیں:

ہم اس چِٹھی کو بار بار پڑھتے ہیں

جس میں وہ نہیں لکھا  ہوتا

جو ہم پڑھنا چاہتے ہیں

 

معافیوں کی درخواست اپنے سب سے خوبصورت رنگ میں نظم ہے

بھلے ہی آپ گناہوں میں شامل نہ ہوں

٠٠٠

 

چور دیوتا

 

دکھ کے سفید پریت سنسار کے کسی کونے میں

میرا پیچھا نہیں چھوڑتے ہیں

میں جہاں جاتی ہوں، وہ چور دیوتا کی طرح میرا پیچھا کرتے ہیں

 

میرے بچپن کے یہ گنوار چور دیوتا ایسے دیوتا نہیں تھے

جنہیں آپ سیاست کے لیے استعمال کر سکیں

شاید اس لیے بھی وہ گمنام رہے

 

چوردیوتا اکثر بے وقت یا برے وقت میں مرے ہوئے بچوں کے پریت ہوتے ہیں

جنہیں سادھ کر اس کام میں لگایا جاتا ہے

کہ اگر گھر سے کوئی سامان چوری ہوجائے

تو وہ چور کا پیچھا کریں

اسے ایسے خوف اور وہم میں مبتلا کردیں

کہ چور ڈر کر اپنے آپ سامان لوٹا دے

 

یہ پریت میرے بچپن سے ابھی تک میرے ساتھ ہیں

میں خوشی لکھنا چاہوں

وہ انگلیاں مروڑ کر دکھ لکھواتے ہیں

میں نعرے لگانے کے لیے چیخنا چاہتی ہوں

وہ گلا دبادیتے ہیں

میری حلق سے دہاڑیں مار کر روتی ہوئی عورتیں

اور مسلسل ستائے گئے آدمیوں کی چیخیں نکلتی ہیں

 

میں انہیں نہیں بھگا سکتی

میں نے چوری کیا ہے اپنا وجود اپنے ہی جیون سے

میں نے ہرے بھرے جنگلوں سے اپنے خرگوش جیسے من کو چُرا کر

اسے تیز خنجر سے چیر دیا تھا

اس کے خون سے میں شہری زندگی کا روزنامچہ لکھ رہی تھی

ایک دن میں نے یہ وجود ہی نہیں، اس کی یادیں بھی کھو دیں

اب میں چاہوں تب بھی چور دیوتا سے پیچھا نہیں چھڑا سکتی

وہ پریت اب ہر جگہ میرے ساتھ ہوتے ہیں

 

سگنلوں پر سوکھے کے مریض  کی شکل میں پھولے پیٹ کے ساتھ یہ پریت

مجھ سے غبارے خرید لینے کی ضد کرتے ہیں

میرے پاس پیسے نہیں ہیں، میں صرف اس لیے نہیں خریدتی

پھر بھی وہ سمجھتے ہیں کہ میں جھوٹ کہہ رہی ہوں

وہ میرا پیچھا کرنا شروع کرتے ہیں

ہر جگہ۔۔۔آفس، لائبریری، پارکنگ

 

الماری کے نیچے کی دھول جھاڑنے

لگ بھگ زمین سے سر جوڑے

میں جھاڑو اندر ڈالتی ہوں اور ان کی آنکھیں دِکھتی ہیں

بھورے،گچھے دار، روکھے بالوں کے بیچ

مجھے یاد نہیں آتا ہے

شاید میں نے ان کے حصے کا تیل بھی چُرایا ہے

وہ  کالے پیلے دانتوں کے ساتھ کِلکاری مارکر ہنستے ہیں

میں ڈر کر دیواروں سے گھرے کونے میں

گھٹنوں پر سر رکھے سہمی سی بیٹھ جاتی ہوں

٠٠٠

 

فن کی حمایت میں

 

گہرے پریم کی یادیں دیوار میں لگی پینٹنگ میں تراشی  گئی لہر کی طرح ہوتی ہیں۔آپ چاہیں تو اس مصور کو گالیاں دے سکتے ہیں ، جس نے تصویر بناکر اس لہر کو ہمیشہ کے لیے پینٹنگ میں قید کردیا۔بے شک، وہ ذمہ دار ہے۔۔لہر کی رفتار چھین کر اسے نری لکیر میں بدل دینے کے لیے۔پریم کو یاد میں بدل دینے کے لیے بھی کوئی تو ذمہ دار ہوتا ہی ہے، لیکن آپ آج اس لہر کی یاد کو دیکھ پارہے ہیں تو اسی مصور کی بدولت۔

 

نظم بھی ایسی ہی یادوں کی ایک تصویر ہے۔نظم کسی یاد کو پونچھ کر مٹادینے سے سو گنا بہتر انت ہے۔ایسے ہی کسی چیز کو اس کی نزدیک آتی ہوئی طے شدہ موت کے خلاف کسی ہنر کے ذریعے از سر نو تعمیر کرنا وقت کی ابدی زیادتیوں کے خلاف  فن کی جرات مندانہ عظیم بغاوت ہے۔

 

اب مہربان، یہ شکایت تو مت کیجیے کہ تصویر میں مصور نے اپنا تصور ملایا۔یہ اس کا فن تھا، جس نے صحیح ، غلط کے تعلق سے اتنے مباحث کو جنم دیا۔

 

ورنہ روز ہزاروں لہریں جنم لیتی ہیں، روز ہزاروں پریم مرتے ہیں۔

٠٠٠

 

نظم کی ان گنت تعبیریں ہیں

 

تمہیں چومنے سے پہلے اپنی ناک کی نوک سے میں

تمہاری ناک کی نوک دباتی ہوں

مجھے وہ دباؤ محسوس ہوتا ہے

جو نظم کا پہلا لفظ لکھنے سے پہلے

قلم کی نوک کاغذ پر ڈالتی ہے

تھوڑا جھجھکتا سا۔۔بے چین دباؤ

 

میں نے ماں کے پیر گنگنے پانی بھری تشتری میں ڈبو کر

خارش سے اگ آنے والےزخم پرانے ٹوتھ برش سے صاف کیے

ان پر پٹرولیم جیلی لگائی

اس کے چہرے پر محسوس ہوا سُکھ

گرم اور ملائم

جو ایک نظم پوری کرلینے پر ہوتا ہے

 

سردی کی ایک صبح دھوپ میں

پیروں پر بچے کو ننگا لٹا کر

میں نے اس پر سرسوں کا تیل ملا

اب وہ تھک کر ڈائری پر لیٹے قلم کی طرح بے فکر سورہا ہے

نظم جیسا ہی ہے اس کا معصوم گلابی چہرہ

مجھے بھروسہ ہے میرے شبد

اس کی پاکیزہ نیند کے بھیتر سانس لے رہے ہیں

٠٠٠

میری بھاشا

 

میرے الفاظ کو دیکھو

تو ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کا بڑھتا

ریلا چلا جارہا ہے

 

کسی حرف نے دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے

تو کوئی سر پر صافہ باندھے ہے

کسی نے دوسرے کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے

تو کوئی قرینے سے گھونگھٹ اوڑھے ہے

 

کوئی حرف دوسرے حرف کی کمر پر

ہاتھ رکھ کر چل رہا ہے

تو کوئی ایک دم اکیلا جارہا ہے

 

کسی حرف کا پیٹ پھولا ہوا ہے

تو کسی کو پتلے دُبلے ہونے کا گمان ہے

 

ملے جلے پریوار کی طرح

اس زبان میں جہاں بہت سارے متحدہ حروف ہیں

وہیں اکیلے کا بھی اُتنا

ہی مان ہے

٠٠٠

 

قبرستان اور کسی جاچکے دوست کے بارے میں

 

قبرستان میں گھومتے ہوئے اکثر محسوس ہوتا ہے۔کیا یہ کوئی باغیچہ ہے، جسے اتنی ترتیب سے سجایا گیا ہے!

 

کیا ہر ایک تابوت ایک بیج ہے، جسے اتنی احتیاط سے گاڑا گیا ہے جیسے اس سے کوئی انکھوا پھوٹے گا۔موت بے رحم ہے، لیکن کتنی سُگھڑ ہے، اپنے ٹہلنے کے لیے باغیچے لگا رہی ہے۔

 

ایسے ہی کسی قبرستان میں گھومتے ہوئے مجھے تم یاد آئے اور مجھے یہ علم ہوا کہ:

 

ہم کسی کی بھی زندگی سے دو بار جاتے ہیں

ایک بار رشتے کی طرح ، دوسری بار خبر کی طرح

٠٠٠

 

کچھ پریم

 

کچھ پریم اچانک ختم ہوجاتے ہیں

حیرت کرنے کی مہلت دیے بغیر

اچانک ختم ہوجانے والی

سڑکوں کی طرح

 

کچھ ہیئرپِن ٹرنز کی طرح ہوتے ہیں

لگتا ہے، بس ختم ہوا سفر

لیکن ہر بار سڑک قلابازیاں کھاتی

ہنس کر آگے بڑھ جاتی ہے

٠٠٠

 

پنکھڑی کی ڈھال

 

ایشور کے آنسو کی دو بوندیں

آسمان سے ایک ساتھ زمین پر گریں

اس طرح ہم دونوں جنمے

ایشور سے ہم کبھی پوچھ نہیں پائے کہ

وہ اس کی خوشی کے آنسو تھے

یا دکھ کے؟

 

تم نے دوب کی دھار سے کاٹا پتھر

پنکھڑی کو ڈھال بناکر روک لیے کئی نشتر

تمہاری آنکھیں جیسے موچی کی آنکھیں تھیں

موچی ہزار پیروں کے بیچ وہ چال پہچان لیتا ہے

جس کی چپل ٹوٹی ہو

تم نے میرا ٹوٹا ہوا من پہچانا

 

ہم میں کبھی ٹکراؤ ہو، تو اتنا ہو

جتنا ایک چڑیا کی اڑان میں شامل

نزدیک اگے دو  پنکھوں میں ہوتا ہے

 

ایک گہرے بوسے کے دوران

دو پریمیوں کی زبانوں میں ہوتا ہے

 

تم سے مل کر میں نے جانا کہ

کوئی گھاؤ ہمیشہ گھاؤ نہیں رہنا چاہتا

وہ مرہم لگانے والے کی یاد میں

بدل جانا چاہتا ہے

٠٠٠

 

لولی گوسوامی 5 جنوری 1987 کو پیدا ہوئیں۔ان کا تعلق ہندوستان کی ریاست جھارکھنڈ کے ضلع دھنباد سے ہےاور فی الحال وہ بنگلور شہر میں مقیم ہیں۔ان کی ایک کتاب’پراچین بھارت میں ماتر ستااور یونِکتا'(قدیم بھارت میں مادرسری نظام اور جنسیت)شائع ہوچکی ہے۔اس پوسٹ میں موجودہ نظموں کا انتخاب ان کے نظموں کے مجموعے ‘اداسی میری ماتر بھاشا(مادری زبان) ہے’ اور  ہندی ویب سائٹ ‘سمالوچن’ پر شائع شدہ ان کی نظموں سے کیا گیا ہے۔

لولی گوسوامی نے بہت اطمینان سے ہندی نظم میں بالکل علیحدہ راستہ اور اسلوب اختیار کرتے ہوئے اپنی جگہ بنائی ہے۔یہ طمانیت ان کی نظموں کی زبان میں بھی نظر آجاتی ہے۔ان کے یہاں صرف موضوع کی ندرت ہی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ وہ نظم کے معاملے میں حساس اور نازک بیانیے  کی ضرورت پر بھی زور دیتی ہیں۔ان کی نظموں کے تعلق سے مشہور ہندی شاعر گیت چتُرویدی نے کہا ہے کہ ‘جن نظم نگاروں نے ہندی کے سنجیدہ ادب پڑھنے والے سماج کا دھیان پچھلے کچھ  برسوں میں  اپنی طرف کھینچا ہے، لولی گوسوامی ان میں سے ایک ہیں۔’